ہم قصوروار ہیں۔۔
ایک ہفتےمیں کراچی سے دو بچیاں لاپتہ ہوٸیں ۔ دونوں کے والدین نے شکایت درج کرواٸی کہ بچیاں اغوا ہوٸیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ دونوں اپنی مرضی سے گھر سے گٸیں ۔ ہوش حواس میں نکاح کر لیا اور سوشل میڈیا پر اعلان بھی کردیا۔ لمحہ فکریہ ہے ہمارے لیے ۔ کیا واقعی یہ سب ماں باپ کو پتہ نہیں چلتا کہ بچی کیا کرنے جارہی ہے ۔
خدا کے واسطے خاندانی روایات کو واپس لاٸیے ۔ دادی کہاں ہے ۔ پھوپھی کہاں ہے ۔ جن کے ساتھ بچیاں سوتی تھیں اور کہانیاں سنتی تھیں ۔ ماں سے ڈرتیں تو دادی اور پھوپھی انکی رازداں ہوتی تھیں ۔ ماں سے بھی پہلے وہی بتاتی تھیں کہ اچھا کیا ہے برا کیا ہے ۔ کس سے ملنا ہے کس سے نہیں ملنا ۔ سر پہ دوپٹہ کب رکھنا شروع کرنا ہے ۔ کس عمر میں سینہ ڈھانپنا ہے ۔
اسکول جانے کے لیے محلے کے تانگے اور رکشے لگاٸے جاتے ۔ محلے داری کی بھی روایات تھیں کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ زرا سی دیر ہوجاتی تو ماں سے پہلے دادی بھاگی پھرتیں کہ بچی کا پتہ کرو دیر کیسے ہوگٸی اور اب شادی سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ گھر میں کون کون ہے ۔ دادی دادے کو چھوڑیں بیٹی والوں کو گھر میں ساس سسر بھی گوارا نہیں ۔
آج تو ٹین ایج بچوں کا بھی الگ کمرہ ہے ۔ ہاتھ میں چوبیس گھنٹے واٹس ایپ اور انٹرنیٹ پیکیج کے ساتھ فون ۔ پراٸیویسی کے نام پر مادر پدر آزادی کے ساتھ ساری ساری رات کون جانے بچے بچیاں سوتے ہیں یا موباٸل پر ہوتے ہیں ۔ پتہ نہیں ماں باپ اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے کہ انکی کتنی توجہ ہے بچوں پر ۔ بچے سارا دن ساری رات کیا کرتے ہیں پوچھا جاتا ہے کہ نہیں ۔ ماں کو اپنے موباٸل سے فرصت ہوگی تو بیٹی پر توجہ دیگی ۔ اکثر گھروں میں معاشرے کی براٸیاں گنواٸی جاتی ہیں ۔ معاشرے میں آپ خود کتنے حصہ دار ہیں یہ تسلیم نہیں کیا جاتا ۔
اگر کسی گھر کی نابالغ یا بالغ بچے بچیاں غلط قدم اٹھا رہے ہیں تو سزا والدین کو ملنی چاہیے نہ کہ بچوں کو ۔ ہر شخص ۔ ہر ماں اور ہر باپ اکیلا بیٹھ کر ضرور سوچے کہ کہاں غلط ہے ۔ کیا غلط ہے اور اگر آپ اصل بات سمجھ گٸے تو انشاآللہ بچے کوٸی بھی غلط قدم اٹھانے سے بچ جاٸیں گے ۔ بچوں کے غلط رویوں کے ذمہ دار ہم ہیں صرف ہم ۔
چلیں سب والدین خود سے سچ بولنا شروع کریں اور کل سے اس سچ پر عمل پیرا ہو جاٸیں کہ بچوں کو کیسے پالنا ہے ۔ کیسے تربیت دینی ہے ۔
*موڈرن زمانہ دہ سار اوخری. لعنت وی نکمہ نسل........................
0 Comments